سلیمانی کے قتل کے بعد امریکا کا خامنہ ای کی رہائش گاہ پر بمباری کا منصوبہ
تہران: ایرانی فضائیہ کے سربراہ امیر علی حازہ زادہ نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں سال جنوری کے اوائل میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی بغداد میں امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی رہائش گاہ پر بمباری کا منصوبہ بنایا تھا۔
خیال رہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کی سمندر پار عسکری کارروائیوں کی ذمہ دار تنظیم 'فیلق القدس' کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو تین جنوری 2020ء کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے بین الااقوامی ہوائی اڈے پر ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس آپریشن میں عراق کی الحشد ملیشیا کے ایک کمانڈر مہدی المہند سمیت کئی دوسرے جنگجو بھی ہلاک ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور دونوں ملک جنگ کے دھانے پرآگئے تھے۔
ایرانی فضائیہ کے سربراہ نے سرکاری ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر قاسم سلیمانی کے قتل کا جواب دیا گیا تو امریکا ایران میں 52 ثقافتی مقامات کو بمباری سے نشانہ بنائے گا۔ امریکا کے اس منصوبے میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی تہران میں موجود رہائش گاہ بھی شامل تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سلیمانی کے قتل کے بعد ایران کو خبردار کیا تھا کہ وہ جوابی کارروائی سے باز رہے ورنہ ایران میں 52 اہم ثقافتی مراکز کو بمباری سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے تاہم امریکی صدر کی طرف سے ان اہداف کی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔
ایران نے امریکی دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے 8 جنوری کو عراق میں امریکا کے زیرانتظام دو فوجی اڈوں پر میزائل حملے کیے جن میں ایک سو سے زائد امریکی فوجی زخمی ہوگئے تھے۔
حاجی زادہ کا کہنا تھا کہ پاسداران انقلاب کی طرف سے عراق میں دو امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کے بعد 400 دوسرے اہداف کا بھی تعین کیا گیا تھا۔ اگر امریکا مزید کارروائی کرتا تو اس کے بعد اس کے 400 مراکز کو نشانہ بنایا جاتا۔
آٹھ جنوری کی رات کو ایران میں یوکرین کا ایک مسافر طیارہ ایرانی میزائل حملے میں تباہ ہوگیا تھا۔ ایران نے اسے انسانی غلطی قرار دیتے ہوئے یوکرین سے معافی بھی مانگی ہے۔ اس ہوائی جہاز پر عملے سمیت 176 افراد سوار تھے جو سب ہلاک ہوگئے تھے۔
Comments are closed on this story.